Search Box

Custom Search

Tuesday, March 24, 2009

برطانیہ میں چاقو حملے کی بڑھتی وارداتیں
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
امریکہ اور برطانیہ کے وزراء و سفراء اور ذمہ داران آئے دن پاکستان میں امن امان کی صورتحال پر کوئی نہ کوئی بیان داغ دیتے ہیں اور انکے بیانات سے ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستان کی فکر میں دبلے ہوئے جارہے ہیں، اور یہ کہ پاکستان کی صورتحال کی
وجہ سے ان کی بھوک مر گئی ہیں اور سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے پاکستان اور پاکستانی عوام کے بارے میں ہی سوچتے رہتے ہیں اور ان سے بڑھ کر پاکستان کو کوئی ہمدرد و خیر خواہ کوئی نہیں ہے جبکہ اپنی جگہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے اکثر مسائل انہی ہمدردوں کی مختلف سیاسی اور اقتصادی پالیسیوں کے باعث ہیں لیکن اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔اس وقت ہم بات کریں کہ مغربی ممالک کو پاکستان کی امن و امان کی بڑی فکر لگی رہتی ہے۔انکو پاکستان میں ہر طرف دہشت گردی کی لہریں اٹھتی دکھائی دیتی ہیں اور ہر طرف دہشت گرد دندناتے ہوئے نظر آتے ہیں۔لیکن خود انکے اپنے معاشرے کا کیا حال ہے اس کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔ہم اکثر ایسی رپورٹز آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تاکہ آج ہمارا نوجوان جو مغربی پروپگینڈے کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کو اپنے ملک میں خرابیاں نظر آتی ہیں اور مغرب معاشرہ مثالی نظر آتا یے تو اس کو تصویر کا دوسرا رخ دکھایا جائے،کہ خود ان ممالک کا اپنا کیا حال ہےایک برطانوی خبر رساں ادارے نے بتایا ہے کہ برطانیہ میں ہیلتھ منسٹر کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سال 96-1997 سے لیکر سال 2007 کے دوران لوٹ مار کی وارداتوں کے دوران چاقو حملوں میں پچاس ہزار افراد زخمی ہوئے ہیں۔یہ بات واضح رہے کہ برطانیہ میں ایک طویل عرصے سے چاقو زنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے اور مختلف جرائم پیشہ گروہ دن دہاڑے راہ گیروں کو لوٹتے ہیں اور مذاحمت کرنے پر قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔اس حوالے سے چند ماہ پیشتر لندن میں ایک افسوسناک واردات ہوئی جس میں دہشت گرد جوڑے نے ایک بوڑھی ریٹائرڈ خاتون کو زخمی کردیا تھا ۔بتایا جاتا ہے کہ وہ بوڑھی خاتون جب بینک سے پینش لیکر نکلی تو راہزن جوڑے نے اس کو اچانک پیچھے سے ایک زور دار دھکا دیا، وہ اس دھکے کے باعث سنبھل نہ سکی اور اپنا توازن کھو بیٹھی اس کے گرتے ہی راہزن عورت نے فوراً اس کے ہاتھ سے اس کا پرس چھین لیا۔اور اس دوران اس کا ساتھی بوڑھی کمزور خاتون کو قابو کرنے میں اپنی ساتھی کی مدد کرتا رہا۔اس حادثے کے باعث وہ بوڑھی خاتون کافی زخمی ہوگئی تھیں۔رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسی عرصے کے دوران دہشت گردی کی واداتوں میں کسی کند آلے سے زخمی ہونے والے 31454 افراد کو ہسپتالوں میں داخل کیا گیا۔ جبکہ اسی عشرے میں 13145 ایسے افراد کو بھی ہسپتالوں میں داخل کی گیا جو فائرنگ سے زخمی ہوئے تھے۔ان تمام وارداتوں میں زخمی ہونے والے افراد کی مجموعی تعداد تقریباً 94600 ہے اور اس میں 4510 بچے بھی شامل ہیں اس طرح دیکھا جائے تو یہ تعداد سالانہ 9460 اور ماہانہ 788 افراد بنتی ہے اور یہ اعداد و شمار اس تہذیب یافتہ معاشرے کے پیچھے چھپے ہوئے اصل چہرے کو بے نقاب کرتے ہیں۔لبرل پارٹی جس نے یہ اعدادو شمار جمع کیے ہیں اس کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال ظاہر کرتی کہ برطانوی معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے اور معاشرے میں چاقو زنی کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔اب اس ساری صورتحال کو سامنے رکھیں اور پھر ان سے پوچھا جائے کہ جناب آپ ہمیں تو جاہلیت کا،ذہنی پسماندگی کا،فرسٹریشن کا شکار تو کہتے ہیں،ہم سے تو آپ کو یہ شکایت ہے کہ یہ پسماندہ معاشرے کے لوگ ہیں اس لیے ان کے معاشرہ میں دہشت گردی ہوتی ہے، لیکن آپ کو کیا ہوا؟آ تو بہت تہذیب یافتہ ہیں۔آپ کے معاشرے میں تو تمام لوگ جدید تعلیم یافتہ ہیں ۔آپ کے یہاں تو مدرسہ کے فارغ التحصیل افراد نہیں ہوتے ہیں پھر یہ وارداتیں کیسی۔؟دیکھیں یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ کسی کے جرائم یا گناہ گنوانے سے اپنے جرم یا گناہ کی شدت کم نہیں ہو جاتی ہے لیکن جن کے اپنے گھروںمیں آگ لگی ہوئی ہے وہ ہماری فکر چھوڑیں اور اپنے گھر کی فکر کریں اس آگ کی لپیٹ سے ان کا اپنا معاشرہ، اپنی نوجوان نسل بچ جائے تو پھر وہ پاکستان اور دوسرے ایشیائی ممالک میں چوہدری کا کردار ادا کریں۔اسی کے لیے اردو میں ایک مثال ہےکہ تجھے پرائی کیا پڑی تو اپنی نبیڑ میاں۔
Salim Ullah
کس کی چیت - کیا سب کی جیت؟
(M. Furqan Khan, Karachi)
آج میں جناب نذیر ناجی صاحب کا ایک کالم پیش کرنا چاہتا ہوں اور میری نظر میں یہ ایک زبردست کالم ہے جس میں مختلف زاویوں سے حالیہ بحرانوں کی طرف توجہ مبذول کروائی گئی ہے۔ نذیر ناجی راقم ہیں“ یہ ایسی جنگ تھی۔ جس میں دونوں جیت سے ڈر رہے تھے۔ اندرونی اور بیرونی دوستوں نے سمجھا بجھا کر دونوں کو جیت سے بچا کر ایک ایسے نتیجے پر پہنچایا، جس میں سب کامیاب رہے۔ میں نے ایک ٹیلیویژن انٹرویو میں کئی دن پہلے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ “سب کامیاب ہوں گے۔“ اینکر پرسن نے حیرت سے پوچھا “سب کیسے؟“ میں نے عرض کیا کہ کسی ایک فریق کی کامیابی تباہ کن ہوگی۔ اس لئے ایسا نتیجہ لازم ہے۔ جس میں سب کامیاب ہوں۔ نتیجہ نکل آیا۔ نواز شریف اپنا مطالبہ منوا کر کامیاب ہوئے۔ صدر آصف زرداری پاکستان کو خانہ جنگی اور تباہی سے بچا کر کامیاب رہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان اپنی کرسی حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ جس قسم کے آرڈر سے وہ معزول ہوئے۔ اسی قسم کے آرڈر سے بحال ہو گئے۔ پہلا اس لئے غلط تھا کہ خلاف گیا۔ دوسرا اس لئے قابل تعریف ہے کہ حق میں آیا۔ چودھری اعتزاز احسن اس لئے کامیاب رہے کہ قومی تاریخ کی سب سے کامیاب سیاسی مارکیٹنگ کا فخر انہیں حاصل ہوا۔ میڈیا اس لئے کامیاب ہوا کہ صدر اور وزیراعظم کے بعد، چیف جسٹس آف پاکستان بھی اس کی طرف دیکھا کریں گے۔ اس نے ایک چیف جسٹس کے انکار کو تقدس کا درجہ دے دیا اور دوسرے کے انکار پر رسوائی کا رنگ چڑھا دیا۔ جتنے ہیرو تحریک چلانے والوں میں ابھرے۔ ان سے زیادہ ہیرو میڈیا نے اپنے لئے پیدا لر لئے۔ آگے چل کر میڈیا میڈ میٹریل ہی پاکستان پر راج کرے گا۔میں نے شروع میں لکھا کہ دونوں فریق جیت سے ڈر رہے تھے۔ صدر آصف زرداری کے ڈر کی وجہ یہ تھی کہ وفاق پاکستان کو بچانا ان کی زمہ داری تھی۔ لیکن جیسے جیسے اسلام آباد پر یلغار کا وقت قریب آرہا تھا۔ سندھ میں متوقع ردعمل کے بھیانک خدوخال ابھرتے نظر آنے لگے تھے۔ سندھ کو وفاق کا بہت ہی ازیت ناک تجربہ ہے۔ وہاں سے اسے ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی میت بھیجی گئی۔ دوسرے وزیراعظم زوالفقار علی بھٹو کی میت بھیجی گئی اور پہلے خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی کی میت بھیجی گئی۔ ہر میت پر کوئی نہ کوئی آگ بجھانے والا موجود تھا۔ لیاقت علی خان کا دکھ بنگالی بھائیوں نے بانٹا۔ شہید ملت وہیں سے منتخب ہوئے تھے۔ بھٹو کے دکھ پر ان کی بیگم اور بیٹی نے مرہم رکھا۔ بے نظیر شہید کے غم میں بھڑکتے شعلوں کو “پاکستان کھپے“ کہ کر آصف زرداری نے ٹھنڈا کیا۔ مگر ان شعلوں کے جھلسائے ہوئے ریلوے اسٹیشن، وفاقی عمارتیں، ٹرک، بسینں اور کنٹینر آج بھی جگہ جگہ پھیلے پڑے ہیں۔ بے نظیر کی شہادت پر بہنے والے آنسو ابھی تک رکے نہیں ہیں۔ آصف زرداری کو زندہ یا مردہ نکال کر پھینکا گیا تو ردعمل میں بھڑکنے والی آگ کے اندر، پہلی تینوں شہادتوں کا ایندھن ہو گا اور بجھانے کے لئے کوئی نہیں۔ بلاول ابھی چھوٹا ہے اور صدمہ بہت بڑا ہو گا۔ نتیجے میں کیا ہو سکتا ہے؟ اس کا اندازہ الطاف حسین اور پیر مظہر الحق کے بیانات اور منجھے ہوئے سیاستدان مولانا فضل الرحمن کے تبصرے سے کیا جاسکتا ہے۔ صدر آصف زرداری نے ایک بار پھر “پاکستان کھپے“ کے عزم کو دہرایا۔ پسپائی ہی ان کی کامیابی ہے۔ وکلا نے چیف جسٹس کو واپس ان کی کرسی پر بٹھا کر اپنا عہد پورا کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملک کی سالمیت اور تحطظ کا فرض جرات و دانش کے امتزاج سے ادا کیا۔ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے اتحادی کو کمزور ہونے سے بچایا۔ پاکستان میں سیاسی استحکام اس کی ضرورت ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس ملک کی دونوں بڑی جماعتیں مل کر کام کریں۔ مگر دونوں بیک وقت اقتدار میں کیسے رہ سکتی ہیں؟ پہلے بھی امریکہ نے زبردستی کر کے دونوں کو اکھٹے کیا۔ ایک ہی کرسی پر بیٹھے دو افراد، زیادہ حصے پر قبضہ کرنا چاہیں تو ایک کو اٹھنا یا گرنا پڑتا ہے۔ نواز لیگ جن دو کرسیوں پر بیٹھی۔ تنگ آکر ان میں ایک سے اٹھ گئی اور دوسری سے سلمان تاثیر نے گرا دیا۔ چند ماہ کے بعد کرسی کی چھینا جھپٹ تیز ہونے ہی والی تھی کہ امریکہ ایک بار پھر بیچ میں آیا اور سیاسی استحکام کے ٹائر کو پنکچر لگانے میں کامیاب ہوا۔ لیکن یہ پنکچر بہت کمزور ہے۔ زیادہ دن نہیں نکالے گا۔ اس پورے ڈرامے کے جس کردار کو بھی دیکھیں۔ وہ کامیاب نظر آتا ہے۔ اطہر من اللہ، اٹل ارادے سے مشہور ہوئے، طارق محمود اپنی سنجیدگی اور خوش گفتاری پر پسندیدہ ٹھرے، علی احمد کرد کوئل کے گلے سے شیر کی دھاڑ نکال کر ہجوم کو حیرت زدہ کرتے رہے۔ حامد خان نے تحریک کے اندر اپنی تحریک بھی جاری رکھی۔ اس تحریک کے کندھوں پر سوار ہو کر “منجی کتھے ڈاہواں؟“ گروپ کے سیاستدان ایک بار پھر زمیں پر آکھڑے ہوئے ہیں اور اپنی منجی اٹھائے پھر سے وہ جگہ ڈھونڈ رہے ہیں جہاں یہ اپنی سیاست کی چارپائی رکھیں۔ اللہ سب کا وارث ہے۔ پاکستان بہت زرخیز ہے، یہاں ہر وقت نئے سے نئے فتنے اٹھتے رہتے ہیں۔ “منجی کتھے ڈاہواں گروپ“ کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ جلد ہی پی سی او ججوں کو نکالنے کی تحریک شروع ہونے والی ہے۔ اپنی پنی مرضی کا جج ڈھونڈ کر اس کے خلاف نعرے لگائیں۔ کامیابی سب کے قدم چومے گی۔ جج کافی ہیں۔ ہر لیڈر اور ہر جماعت ایک جج کو ہدت بنا کر اس کی بطرفی پر اپنی چھاپ لگا سکتی ہے اور تحریک کی کامیابی پر دعویٰ کر سکتہی ہے کہ جج کو نکلوانے کا کارنامہ اس کا ہے۔ٹی وی چینلز اتنے ہو گئے ہیں کہ دانشور پورے نہیں پڑتے۔ ایک ایک اینکر کو اپنے شو کے لئے روز تین تین چار چار دانشوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ قلت کے نتیجے میں بڑے بڑے تماشے ہوتے ہیں۔ عییدالاضحیٰ پر آپ نے دیکھا ہو گا کہ مرغی کاٹنے والے قصائی، بکرے اور گائے زبح کرنے نک کھڑے ہوتے ہیں اور جب کھال اتارنے کا وقت آتا ہے ان کی بے بسی دیکھنے والی ہوتی ہے۔ درجنوں ٹی وی چینلوں پر درجنوں ٹاک شوز کا پیٹ بھرنے کے لئے، مرغیوں کے ماہر دانشوروں کا بھی دائ لگ رہا ہے۔ میں بھی انہی میں ہوں۔ ایک شرارتی اینکر نے کہا “ایک ہی دن دو بڑے واقعات ہوئے، چیف جسٹس کی بحالی اور مختاراں مائی کی شادی“ میں نے کہا فکر مند نہ ہوں۔ آپ لوگ جلد ہی کوئی نئی مختاراں مائی ڈھونڈ لیں گے۔



محبوب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور باغ خدا کے پھول
(Rizwana, Karachi)
میرے پیارے نبی محمد صلی الله علیہ وآلہ وسلم بچوں سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ راستےمیں کہیں بچے آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو کھیلتے ہوئے مل جاتے تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم انہیں سلام کرنے میں پہل کرتے اور ان سے پیار بھری باتیں کرتے۔ سفر سے واپسی پر بچوں کو اونٹ پر آگے پیچھے بٹھا لیتے اور موسم کا کوئی نیا پھل آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جاتا تو آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم وہ پھل سب سے پہلے مجلس میں اسے دیتے جو سب سے چھوٹا ہوتا۔آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم کو ننھے منے بچوں خاص دلچسپی تھی۔آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے پیار کرتے اور ان کے لئے دعا کرتے۔ بعض اوقات آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم بچوں کو بہلانے کے لئے عجیب کلمے ادا کرتے۔آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا“بچے تو خدا کے باغ کے پھول ہیں“آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم ایک شاہراہ سے گزر رہے تھے ،پیارا نواسہ حضرت امام حسین رضی الله تعالی عنہ اس کندھے پر سوار ہے،جس پر پورے عالم کی قیادت کا بوجھ تھا۔ راہ میں کسی نے کہا ،“کیا اچھی سواری ہاتھ آئی ہے تمہیں صاحب زادے۔ پیار کرنے والے نانا نے کہا“سوار بھی کیسا اچھا ہے‘


ہم کہاں کھڑے ہی
(Kamran Khan, Karachi)
نائن الیون کے حادثے کو ساڑھے سات سال بیت گئے.ان سات سالوں میں کیا کیا طوفان آئے اور گزر گئے،مسلم دنیا پر کیسے کیسے مظالم ڈھائے گے یہ کسی سے پو شیدہ نہیں.امریکی حمایت کا یہ صلہ ملا کہ آج پاکستان پر جنگ مسلط کی جا چکی ہے. آج پاکستان کا ہر شہر لہو لہو ہے. اگر نقصانات کا جائزہ لیا جائے تو شمار نہیں کیے جا سکتے.نائن الیون کے حادثے کو بہانہ بنا کر(اسے بہانہ ہی کہا جائے گا. کیونکہ حقیقت کسی کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے)دہشت گردی کے خلاف جو جنگ امریکہ نے شروع کی. وہ پہلے سے ہی پلان شدہ تھی. یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے. آپ کو یاد ہو گا ایسی دستاویزات منظر عام پر آئی تھیں جن کے مطابق پاکستان کا وجود 2025ء تک دنیا سے مٹا دیا جانے کا امریکی منصوبہ طشت از بام ہو گیا (ہاکم بدہین).افغانستان میں روس کی شکست کےلیےامریکہ نے اپنا بے پناہ سرمایا اور اسلحہ تقسیم کیا. افغان ایک جفا کش قوم ہے آپ افغانوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں. جسے وہ اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں . اسے اس کے گھر میں بھی پناہ نہیں ملتی. اسلحے اور روپے سے کبھی کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی. اس کے لیے افرادی قوت ،جذبے اور ہمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے.روسی افواج نے فغانوں پر وہ وہ ظلم کیے کہ تصور سے ہی دل کانپ اٹھتا ہے. لاکھوں لوگ اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے. افغانوں نے ہار نہ مانی اور ان کی ہمت اور حوصلے نے وہ کام کر دکھایا کہ تاریخ انگش بد نداں ہے. وہ روس جس کے آگے کسی کو سر اٹھانے کی جرات نہ تھی روس نہ رہ سکا. اس کے وجود سے کتنے نئے وجود ابھرے ؟افغانوں کی جیت ہوئی . لیکن ان کی نسلیں بھی تو جنگ میں کام آ گئیں لیکن انہوں نے حوصلہ نہ ہارا.پھر افغانستان میں نفسا نفسی کا دور شروع ہوا خانہ جنگی شروع ہوئی اس میں طالبان نے میدان مار لیا اور انہوں نے افغانستان میں مکمل شرعی نظام نافذ کر دیا افغانستان کو ایک اسلامی اسٹیٹ بنا دیا شرعی عدالتیں قائم کیں اور شرعی حدود جاری کی گئیں دین اسلام میں جن چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے انہیں ختم کر دیا گیا.پاکستان کو کلمہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا. لیکن آج تک کلمہ کا نظام نافذ نہ کیا جا سکا. طالبان نے وہ کام افغانستان میں کر دکھایا. (کیمونیسٹ طبقہ یہ بات ماننے سے انکاری ہے). لیکن حقیقت، حقیقت ہی ہوتی ہے. کوئی جھٹلائے یا مان لے. اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.عالم کفر نے جب دیکھا افغانوں نے دوسال کے اندر 18/20 برس کی جنگ کے اثرات کو خاتمے کے قریب پہنچا دیا ہے اور 10سال بعد کا تصور کر کے افغانوں کو دیکھا تو وہ انہیں اپنے ایوانوں میں تلوار بدوش کھڑے نظر آئے اور ان کا ہاتھ اپنے گریبانوں کی طرف بڑھتا محسوس کیا تو سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ نوبت آئے افغانوں پر ایک اور جنگ مسلط کر دی جائے امریکہ جن طالبان کے سر پر دست شفقت رکھتا تھا جب انہوں نے اسی کے مطالبات کو پس پشت ڈالا تو سپر پاور کا ڈریکولانہ مزاج یہ بے مروتی برداشت نہ کر سکا اور9/11 کو وجہ قرار دے کر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے،افغانستان پر چڑھ دوڑا، اس نے سمجھا کہ افغان ،جنگ کی تباہ کاریوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں ایک اور جنگ کو کہاں برداشت کر سکیں گے اور چار دن میں گھٹنے ٹیک دیں گے .لیکن خود ساختہ سوچ کے مطابق نتیجہ نہ نکل سکا چار دن تو کیا سات سال بعد بھی اسے ایک ذرہ برابر کامیابی نہ ہوئی نتیجہ آپ کے سامنے ہے آج روس جیسا کڑا وقت امریکہ پر بھی آ چکا ہے ٹیکنالوجی کے زعم میں مبتلا امریکہ آج افغان پہاڑوں کے سامنے بے بس ہو چکا ہے نہ سیٹلایئٹ کام آتے ہیں نہ ا یف 16طالبان کو امریکہ کا ناجائز کہنے والوں کو بات ہضم نہیں ہوتی امریکہ کے دست شفقت سے ابھرنے والے آج اسے ہی ادھیڑ رہے ہیں یہ کوئی خیالی باتیں نہیں آپ خود مشاہدہ کر سکتے ہیں کیا امریکہ افغانستان میں کامیاب رہا؟ چار دن کا راگ الاپنے والا سات برس میں کیا کچھ گنوا چکا ہے؟ آپ دیکھ سکتے ہیں.عراق کی صورتحال کا بھی جائزہ لے لیجیے کیا وہاں اسے کامیابی ملی روزانہ کتنے تابوت اتحادی ممالک میں بھجوائے جاتے ہیں؟ صدام کے دور میں قتل و غارت زیادہ تھی یا امریکی کٹھ پتلی حکومت کے دور میں؟امریکہ نے، ٹیررسٹ اور شدت پسندی کا ایسا راگ الاپا کہ آج اسے ہر داڑھی والا، ہر نمازی اور اسلام پر عمل کرنے والا، دہشت گرد دکھائی دیتا ہے اس پر چار سے دشمن تو دشمن اپنے بھی جال میں پھنس چکے ہیں اور اپنے وطن، دین اور عزت و ناموس کی حفاظت کرنے والے بھی دشت گرد اور شدت پسند دکھائی دیتے ہیں کیا عراق میں امریکہ کامیاب ہوا ہے؟ کیا وہاں امن ہے؟آج افغانستان اور عراق والی صورت حال پاکستان میں بھی پیدا کی جا چکی ہے پاکستان نے اپنی ہمت سے بڑھ کر امریکہ کا ساتھ دیا لیکن بدلے میں کیا ملا؟ تباہی، بربادی٬ بم دھماکے٬ خود کش حملے٬ مہنگائی٬ غربت٬ قتل و غارت٬ عدلیہ کا بحران.کیا پاکستان پر جنگ مسلط نہیں کی جا چکی ہے؟ ہم تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں لیکن دوست دشمن کی پہچان نہیں کر سکتے ہم نے دشمن کو دوست بنا رکھا ہے جو گھر کا بھیدی بن کر لنکا ڈھانے کی کوشش میں ہے ہم آنکھیں کھولنے کی بجائے بے مقصد اور لا حاصل مباحث میں الجھے ہوئے ہیں جن کا نتیجہ سات سالوں میں نکلا ہے نہ دس سالوں میں نکلے گا

No comments:

Post a Comment